محمد حمید شاہد
پبلشرز: مثال ، فیصل آباد 2013
……………………..
’’یقین جانیے میرے لیے، فقط لکھنااوراس لکھنے کے عمل سے حظ اٹھانا کبھی اہم نہیں رہا ، کہ میں تو زندگی کے بھیدوں بھرے کھِدو کو کھولتے چلے جانے، اور ہر تہ کے اترنے پر بے پناہ حیرت یا شدید صدمے کے مقابل ہو جانے کو ہی تخلیقی عمل کی عطا سمجھتا آیا ہوں۔ سو یہ افسانے بھی انہی لمحوں کی دین ہیں ۔ وہ جوکیس ہسٹری سے باہرقتل ہو جاتی ہے یا پھر پہاڑوں سے رزق کی تلاش میں اتر کر آنے اور زندگی کی اشتہا کا گرفتار ہوجانے والاآدمی ہے ،ملبے میں دھنسا ہوا ماسٹر فضل جُو،بکھرا ہوئے وجود والا کامران،قدیمی میزان ِعدل پرتلنے والی روحیں، ککلی کلیر گاتی بچیاں، بھرکس کہانیوں کا پشتارہ اٹھائے اٹھائے پھرنے والا ،بیٹی کا جنازہ اٹھنے پر بین کرنے والی ماں،وہ مرا ہوا شخص جسے زندگی کے بخیے لگانے تھے، اکیلی رہ جانے والی عورت جس کی رانوں پر لجلجا اندھیرا گدگدی کیا کرتا، خالی کنستر کی طرح بجتی زندگی والا راوی کردار ، کوک بھرے کھلونے کاسا ایک اور کھلونا،ماں کی دودھ جیسی بغل میں جھانک کر مُغلئی پھوڑے کو آنکھ میں بھر لینے اورلذت تن کا اسیرہو جانے والا عالم یا پھر وہ لڑکی جس کے اجلے بدن کو متعفن پانیوں کی دھار نے بھگو دیا تھا، یہ سب کردار میرے وجود کا حصہ ہیں ، میری حیرتوں کے رازداں اور میرے دُکھوں کے شریک ۔ سو ان افسانوں کو پڑھیے اور اس درد اور اذیت کو
محمد حمید شاہد
حمید شاہد کے اس مجموعے میں 17 افسانے ہیں۔ اور ان میں ایک کے انداز کے بارے میں مجھے بطور افسانہ نگار کچھ اختلاف بھی ہے لیکن جہاں تک ان کہانیوں کا تعلق ہے، آپ بھی انھیں یقینی طور پر نیّر کے الفاظ کے مطابق نئی حقیقت نگاری کی ایک اچھی مثال ہی محسوس کریں گے۔
ایک بات تو رہ ہی گئی اس کتاب کے فلیپس پر حمید شاہد نے جو ٹکڑے دیے ہیں انھیں کہانیوں کے خلاصے مت سمجھیے گا، میں تو کہوں گا کہ ٹیزر بھی اچھے نہیں افسانے زیادہ زور دار ہیں پڑھ کر دیکھ لیں۔ ایک ہی افسانہ پڑھ کی آپ میری رائے کے قائل ہو جائیں گے۔ پھر ذہن پر بہت زور بھی نہیں ڈالنا پڑے گا۔ ہاں ڈالیں گے تو فائدہ زیادہ ہوگا۔
ان کہانیوں کو پڑھ کر آدمی پریشان ہو سکتا ہے ….ہو ا ۔
لفظ سنوارنے والے کو داد دے سکتا ہے …….دی ۔
مسلسل نئے پن … تکرار کی حد تک نئے پن کو محسوس کر کے دنگ ہو سکتا ہے…. وہ بھی ہوا ۔
بس ایک چیز نہیں ہوئی کہ ان کہانیوں کو پڑھنے کا حق ادا نہیں ہوا …. کوشش کے باوجود ابھی ان میں اور ڈوبنا ہے۔
آپ نے لفظوں کو کوٹ پیس کر سفوف بنا لیاہے اور کہانی کے چہرے پر جہاں چاہتے ہیں ، غازے کی طرح مل دیتے ہیں۔ کہیں کہیں یہ بھی مطالعے میں آیا کہ آپ غازے کی طرح چہرے پر نہیں ملتے بلکہ اپنے باہنر ناخنوں سے کہانی کی شریانوں کو چیر کر وہ سفوف کہانی کے لہو میں شامل کر دیتے ہیں۔
اس کتاب کے افسانے
کتاب الاموات سے میزان عدل کا باب
تھوتھن بھنورا
کوک بھرا کھلونا
الٹی ہتھیلی پر رُکی ہوئی گیٹی
خالی بٹوا
گندی بوٹی کا شوربا
لذت تن بدن برزخ 1
بس کی پڑیا بدن برذخ 2
ثانیے کی سمٹن بدن برزخ 3
Related Links|Please Click to Visit
پروفیسر فتح محمد ملک|بند آنکھوں سے پرے‘ جنم جہنم اور مرگ زار
امجد طفیل|محمد حمیدشاہد کے افسانے
4 تعليقات
Pingback: » بند آنکھوں سے پرےM. Hameed Shahid
Pingback: » جنم جہنمM. Hameed Shahid
Pingback: » بی بی سی اردو|ذی ہوش قصہ گوM. Hameed Shahid
Pingback: » سید محمداشرف|مسلسل نیا پن:تکرارکی حد تک نیا پنM. Hameed Shahid