“یا حضرت ! بیان جاری ہوـ”:=:
”بیان؟ ارے نادانو! میں کیا‘ میرا بیان کیا۔ میں پہلے خود بہکا تھا۔ پھر اَپنی آل کو بہک جانے دیا۔ اور اب لوٹ جانے کو مٹی میں کودے پھرتا ہوں۔ سمجھو تو یہ دنیا بڑی اشتہا انگیز ہے۔ پانیوں میں غوطہ زن نچلی ذَات کی ان لڑکیوں کی طرح ‘جن کا کبھی بھگوان کرشنا بہت دل دادہ تھا۔ اور جن کو بے لباس دِیکھنے کے لیے تالاب کنارے چھپ بیٹھا تھا۔ اور چپکے چپکے اَشنان کرتی سب نارےوں کے کپڑے اَکھٹے کیے تھے۔ اور جھاڑیوں میں چھپا ڈالے تھے۔
ارے او نادانو! میں بھی تمہاری طرح دیوانہ تھا۔ دُنیا کو ننگی آنکھ سے دیکھنا چاہتا تھا‘ آخری سرے تک۔ اور میں اُس کا لباس چھپاے مطالبہ کیا کرتا تھا کہ وہ دونوں ہاتھ اُٹھائے آہستہ خرامی سے گہرے پانیوں سے نکلے گی تو ستر ڈھانپنے کو لباس لوٹاﺅں گا۔ ورجل نے کہا تھا۔ ”اگر میں دیوتاﺅں سے اَپنی نہیں منوا سکتا تو میں جہنم میں ہلچل مچادوں گا“ اور وہ ناریاں بھی اسی کے کہے پر عمل پیرا تھیں۔ وہ مجھ سے اَپنی التجائیں نہ منوا سکی تھیں اور جہنم میں ہلچل مچ چکی تھی۔
××
تو اے نادانو‘ اُس کا مجھے بعد میں شعور ہوا کہ دنیا اَپنی چال چل رہی تھی۔ جو وہ چاہتی تھی‘ وہی مجھ سے مطالبہ کراتی رہی اور میں اسے پانیوں سے نکالتے نکالتے خود گہرے پانیوں میں گر پڑا۔“
”ابا جی‘ نکلیں نا باہر۔“
:×:
”رہنے دو۔ ارے او لونڈو! یا حضرت کو اپنے حال میں مست رہنے دو۔ مت چھیڑو انہیں۔ اعلیٰ حضرت بیان فرما رہے ہیں۔“
××
”لوگو! خدا کے لےے اَپنی اَپنی راہ لو۔ یہ بزرگ‘ ہمارا باپ ہے۔ ذرا من موجی ہے کہ گندھی ہوئی مٹی میں قدم دھرے تم سے عجیب بہکی بہکی باتیں کرتا رہتا ہے۔ ورنہ اس کا تو اپناگھر ہے۔“
:=:
”گھر؟ ہاہاہا۔ اپنا گھر؟ چپ ہوجاﺅعاقبت نااندیشو! چپ ہو جاﺅ۔ تمہارے دِھیان نے ہی تو مجھے گھر سے نکالا تھا۔ میرے اپنے گھر سے۔ تمہارے دھیان نے۔ ہاں تمہارے دھیان نے۔“
:×:
:=:
”ارے صاحبزادو! تم بے شک اعلیٰ حضرت کے چشم و چراغ ہو‘ مگر اعلیٰ حضرت تو اس وقت جلال میں ہیں۔ دیکھو تو‘ ان پر مراقبے کا عالم طاری ہو گیا ہے۔ دیکھو تو‘ ان کے ہونٹ تھرتھرا رہے ہیں اور لفظ قطرہ قطرہ پھسل رہے ہیں۔ پاس پاس ہوجاﺅ۔ تم بھی سنو اور ہمیں بھی سننے دو۔ لو سنو!“
”وہ ایک ایسا تاریک غار تھا کہ سورج بھی اُس سے آنکھ بچا کر نکل جایا کرتا تھا۔ یہی مناسب جگہ تھی۔ وہ غار میں داخل ہو گئے۔ اُن کے پیچھے پیچھے ایک کتا بھی چلاآیاتھا‘نہ جانے کیوں؟لاکھ اُسے واپس بھیجا گیا‘ مگر کتا
تھا کہ واپس پلٹنے کا نام نہ لیتا تھا۔ جب وہ غار میں تھے تو کتا اُس کے دَہانے بیٹھا
ہوا تھا‘ یوں کہ جیسے پہرا دے رہا ہو۔“
جانتے ہو‘ کون تھے وہ؟ کیوں چھپے بیٹھے تھے ‘وہاں؟
مگر تم کیا جانو۔“
××
”ابا جی ‘ ابا جی‘ خدارا ہوش میں آئیں۔ گھر چلیں“
:=:
ہوش؟ ہاہاہا۔ ہوش۔ کیسا ہوش؟ کہ میں تو بدن کی دَلدل میں اَپنی چوٹی تک دَھنسا ہوا ہوں۔ یہ سَت تو بَس نِرا سَت ہے۔ اِس میں چِت کہاں؟ اورچِت بنا آنند پاﺅں تو کیسے؟
××
” مگر ابا جی۔“
:×:
”صاحبزادو! اعلیٰ حضرت کو مت ستاﺅ۔ بیان جاری رہنے دو۔“
:=:
”ارے نادانو! یہ چُپ کیسے بیٹھیں گے؟ یہ میرے بیٹے تو دراصل راون کا دوسرابہروپ ہیں۔ شیطان راون کا دوسرا جنم۔ اور میں بھگوان ہنومان کی منت سماجت کر رہا ہوں۔ وہ میری مدد کو راضی ہو گیا ہے۔ مگر اس شرط پر کہ مجھے اس کے جڑواں بھائی کو ختم کرنے میں مدد دینی ہے۔ بارہ سال لمحہ لمحہ کر کے بیت چکے ہیں اور میں خُوش ہوں کہ ہنومان کے لےے میں پل تعمیر کر چکا ہوں۔ مگر اب یہ خدشہ میرے اندر جڑ پکڑ چکا ہے کہ جب میں ہنو مان کی مدد سے سیتا تک پہنچوں گا تو نہ جانے اس پر کیا بیت چکی ہوگی؟ نہ جانے کیااور کون جانے بیت چکی ہو گی۔“
××
”ابا جی‘ ابا جی‘ ہوش کریں ابا جی‘ دیکھیں ہم آپ کے بیٹے آپ کو لینے آئے ہیں۔“
:×:
”رُک جاﺅ اعلیٰ حضرت کے جگر پاشو! اعلیٰ حضرت تو مراقبے میں ہیں۔ اُن کے دھیان میں خلل نہ ڈالو۔“
××
”لوگو ہمیں لے جانے دو اپنے ابا جی کو۔ دیکھو ہمیں دیر ہو رہی ہے۔ ہم معاشرے کے عزت داروں میں اَہم مَقام رَکھتے ہیںاور جب عزت دار پوچھتے ہیں کہ تمہارے ابا جی کو کیا ہوا؟ تو ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں“
:=:
”شرم؟ ہاہاہا۔ شرم؟ ارے او نادانو! یہ میرے بیٹے اور شرم؟ جانتے ہو نادُرگا کو؟ ارے پاروتی کو؟ ارے وہی وہی جسے تم کالی دیوی کہتے ہو۔ ہاں بھئی وہی جو الف ننگے مجسمے کی صورت بھگوان شیوا کے بے جان جسم پر سوار ہے اور جس کی زبان سے خُون کے قطرے ٹپکتے دِکھتے ہیں۔ اور جس کے ایک ہاتھ میں پھندا‘ نوک دار برچھی‘ خُون آلودہ تلواراور کٹا ہوا اِنسانی سرہے۔ ہاں‘ اُسی پر میں نے اپنے باطن کے تمام پاکبازبچے قربان کیے تھے‘تب یہ ناہنجارمیرے ہاں پیدا ہوے تھے‘ جن
کے سر اَب میرے نام پر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ بے شرم۔ بے شرم۔“
:×:
”صاحبزادو! تھوڑا سا پیچھے ہٹ جاﺅ۔ دیکھو تو اعلیٰ حضرت جلال میں ہیں۔“
××
”مگر‘ لوگو‘ ہمیں تو اِنہیںساتھ لے جانا ہے۔“
:=:
”اَرے او ناہنجارو! تم‘ تم مجھے لے جانے آئے ہو؟“
××
”جی‘ ابا جی ہم آپ کو اَپنے ساتھ اَپنے گھر لے جانے آئے ہیں۔“
مگر بے شرمو! میرا گھر توےہی گارے کی گھانڑی ہے اور تم جسے اَپنا گھر کہتے
ہو نا! وہاں تم نہیں تمہارا خوف رہتا ہے۔ ایسا خوف جو اَسلحہ اُٹھائے دربانوں سے بھی نہیں رکتا۔ میرے سر پر تو فلک جیسی مضبوط اور خوبصورت چھت ہے۔ جب کہ تمہارے خوف نے لوہے اور سیمنٹ سے چھت بنا کر فلک جیسی چھت بنانے والے کے ساتھ شرک کیا ہے۔ تم میرے بیٹے نہیں‘ خوفزدہ مشرک ہو۔ میں مشرکوں کے ساتھ بھلا کیسے رہ سکتا ہوں؟کیسے؟ کیسے؟“
:×:
”اللہ“
:×:
”اللہ“
:×:
دیکھو صاحبزادو! اب اعلیٰ حضرت پھر مراقبے میں ہیں۔ اب اِنہیں مت ستاﺅ۔ اور دیکھو تو‘ ان کے ہونٹوں سے لفظ تسبیح کی طرح دانہ دانہ پھسل رہے ہیں۔ آﺅ
:=:
سماعتوں کی جھولیاں پھیلائیں۔ اور دِلوں پر پڑے قفل کھولیں۔ آگے بڑھو‘ سنو۔
”وہ اپنے شہر اِفسس کو چھوڑ کر غار میں جا بیٹھے تھے۔ کچھ کہتے ہیں وہ تین تھے اور چوتھا اُن کا کتا اور کچھ کہتے ہیں‘ پانچ یا سات تھے اور چھٹّا یا پھر آٹھواں اُن کاکتا۔ حالاںکہ سب بے تُکی ہانکتے ہیں۔ کہ صحیح تعداد سوائے اللہ کے‘ کوئی نہیں جانتا۔ہاں تو اے نادانو! اُن میں ایک شخص تھا؛ یملیحاہ۔ اور میں اس کا ظل ہوں“
××
”مگر ابا جی! ہمیں دیر ہو رہی ہے۔ چلیں‘ چلیں بھی نا اپنے گھر۔“
:=:
”دیر؟ ہاہاہا‘ دیر‘ وہ تو ہو بھی چکی۔ میں گزرے وقت کے پانی میں غوطے پہ غوطہ لگاتا ہوں‘ مگر گہری تہہ میں فقط ریت ہی ریت ہے۔ ایسی ریت کہ میں اوپر اٹھتا ہوں تو وہ میری مٹھی سے پھسل کر پھر نیچے جا پڑتی ہے۔ اس کا رِزیاں میں وقت گزرتا چلا گیا ہے۔ میری مٹھی خالی ہے اور میرے اعصاب ٹوٹ چکے ہیں۔“
××
”ابا جی‘ اباجی! خدارا گھر چلیں۔“
:=:
”حرام خورو! دفع ہو جاﺅ کہ تمہاری عورتیں مجھے دیکھ کر تمہیں گھر سے نکال دیں گی۔ تم نے ابھی اَپنی بیویوں کو غور سے نہیں دیکھا۔ جاﺅ کہ وہ سیتا کی طرح ایک ہاتھ میں ایسے نمائش پنکھے اُٹھائے ہوے ہیں جن پر راون کی تصاویر بنی ہوئی ہیںاور وہ اُنہیں سینے سے لگائے تمہاری خواب گاہوں میں تمہارے بستروں پر دراز ہیں۔“
××
”ابا جی‘ اباجی! آپ جنوں میں نہ جانے کیا کچھ کہے جا رہے ہیں“
:=:
:×:
”نادانو! جنوں کیا؟ اور خرد کیا؟ ہاہاہا‘ جنوں؟ کاش یہ دولت مجھے نصیب ہوجاتی۔ کاش‘ یہ دولت مجھے نصیب ہو۔ کاش‘ اے کاش۔“
”صاحبزادو! آج آپ نے اعلیٰ حضرت کو بہت ستایا۔ دیکھو تو وہ مراقبے میںہیں۔ اب کچھ مت بولوا ور دیکھو تو ان کے ہونٹ تھرتھرارہے ہیں اور لفظوں کی کلیاں چٹک رہی ہیں۔ سنو! “
:=:
” ….اور جب اُن کی آنکھ کھلی‘ تو ایک دوسرے سے پوچھنے لگے: کہو تو کتنی دِیر سوئے۔ جواب ملا‘ شاید ایک دِن یا پھر اُس سے بھی کم۔ مگر وہ یقین سے کچھ نہ کَہ سکتے تھے۔ کہ اللہ ہی بہتر جانتا تھا وہ اِس حال میں کتنی دیر رہے۔
تب یملیحاہ کو چاندی کا ایک سکہ دِیا گیا۔
وہ یملیحاہ کہ جس کا ظل میں ہوں۔
بھوک اُن کے جسموں میں بے قابو ہوئی پھرتی تھی۔“
××
”ابا جان‘ ابا جان‘ اَب ہمیں بھی بھوک لگی ہوئی ہے اور ہماری بیویاں دسترخوانوں پرہماری منتظر ہو ں گی۔“
:=:
”منتظر؟ ہاہاہا۔ ارے او حرام خورو! انتظار کا بیج توکچی مٹی میں پھوٹتا ہے۔ اس کی سوندھی خُوشبو میں بڑھتا‘ پھلتا‘ پھولتاہے۔ تُم کیا جانو کہ اِنتظار کیا ہے؟ تم نے کبھی بچوں کو ان کے گالوں پر بوسہ دیا ہے؟ اُن کے دہنوں سے اُمنڈتی کچے دُودھ کی مہک کو سونگھا ہے؟ تُم نے کبھی بچیوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا ہے؟ اُن کی آنکھوں میں طلوع ہوتی دَھنک کو دِیکھا ہے؟ تُم نے کبھی اَپنی منکوحہ عورتوں کو محض خلوص اور محبت سے دیکھا ہے؟ اور اس کے نتیجے میں ان کے جسموں پر اُترتے رنگوںکومحسوس کیاہے؟ نہیں کہ نہ تمہارے پاس وقت تھا‘نہ تمہارے ساتھ وقت
ہو سکتا ہے۔ تمہیں بڑی بڑی پارٹیوں سے ڈیل کرنا ہے۔ لنکس بڑھانے ہیں۔اور کندھے مارتے ہوے آگے بڑھنا ہے۔ اِدھر جو وقت نہیں رہا تو اُدھر بھی احساس جاتا رہا۔ کہ اُدھر اب نام نہاد سوشل ورک ہے۔ کلب ہیں۔ فیشن شوز ہیں۔ اور تم کیا جانو کہ انتظار کیا ہے؟ اور وہ کیا جانیں کہ انتظار کیسا ہوتا ہے؟“
××
”مگر اباجی‘ ہم….“
:=:
تم؟ ہاہاہا۔ تم‘ تو لوگوں کا منھ بند کرنے مجھ تک آئے ہو۔ مگر میں سیمنٹ اور لوہے
کے بنے ہوے قید خانوں میں خود کو کیوں مقید کروں؟ کہ مجھے تو اس گھر سے ہجرت کرنا پڑی تھی جس کے آنگن سے مٹی کی سوندھی سوندھی مہک اُٹھتی تھی اور روح میں اترتی تھی۔ مگر جب میں نے اپنے باطن کے پاکباز بچے قربان کیے تھے اور تمہارے دِھیان نے میرے شہر کو دقینوس سے تیذوسس والے شہر میں بدل دِیا تھا تو بیچ میں صدیاں گزر گئی تھیں۔
صدیاں یونہی گزر رہی ہیں۔اور میرے ہاتھ میں اپنے وقتوں کا سکّہ ہے۔ ایسا سکّہ جو فقط دفینوں میں تو ہو سکتا ہے کسی زندہ فرد کی ملکیت نہیں ہو سکتا۔ اب تم آئے ہو تو میں ساری حقیقت جان گیا ہوں۔ تم میرے بیٹے نہیں‘ نئے شہر کے کوتوال ہو۔ تم مجھے میرے ساتھیوں کے پاس لے جاﺅ گے‘ جو نہیں جانتے کہ کیا سانحہ بیت چکا ہے تو وہ میری طرح اصل حقیقت جان جائیں گے اور دہشت زدہ میرے ساتھ لپٹ کر نہ صرف ہمیشہ ہمیشہ کے لےے خود سو جائیں گے‘ مجھے بھی سلا ڈالیں گے۔ مگر ابھی مجھے اس حیرت کدے میں رہنا ہے‘ اپنے سکّے کے ساتھ۔ لہٰذا چلے جاﺅ کہ میں تمہارے ساتھ نہیں چل سکتا۔ نہیں چل سکتا۔ نہیں چل سکتاتمہارے ساتھ۔“
محمد حمید شاہد کے افسانے
Click to read now
46 تعليق
Pingback: » گانٹھ|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » اللہ خیر کرے|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » برف کا گھونسلا|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » بند آنکھوں سے پرےM. Hameed Shahid
Pingback: » سورگ میں سور|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » مَلبا سانس لیتا ہے|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » پارہ دوز|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » پارِینہ لمحے کا نزول|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » ڈاکٹر توصیف تبسم|اثباتM. Hameed Shahid
Pingback: » مراجعت کا عذاب|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » آئنے سے جھانکتی لکیریں|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » دُکھ کیسے مرتا ہے|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » پارو|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » تماش بین|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » کہانی اور کرچیاں|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » کیس ہسٹری سے باہر قتل|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » مَرگ زار|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » رُکی ہوئی زندگی|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » وَاپسی|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » سجدہ سہو|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » منجھلی|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » کِکلی کلیر دِی|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » جنریشن گیپ|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » جنم جہنم-3|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » نِرمَل نِیر|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » نئی الیکٹرا|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » موت کا بوسہ|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » ماسٹر پیس|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » کتابُ الاموات سے میزانِ عدل کاباب|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » تکلے کا گھائو|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » آٹھوں گانٹھ کمیت|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » ہار،جیت|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » گرفت|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » آخری صفحہ کی تحریر|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » جنم جہنم-1|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » تکلے کا گھاﺅ|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » ناہنجار|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » معزول نسل|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » ماخوذ تاثر کی کہانی|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » کہانی کیسے بنتی ہے|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » دوسرا آدمی|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » بھُرکس کہانیوں کا اندوختہ آدمی|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » آدمی کا بکھراﺅ|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: برف کا گھونسلا|محمد حمید شاہد – M. Hameed Shahid
Pingback: تماش بین|محمد حمید شاہد – M. Hameed Shahid