
میرا صاحب منٹو۔۔۔” برسوں پہلے قائد اعظم محمد علی جناح کے ڈرائیور کی باتیں سن کر منٹو نے مضمون لکھا تھا”میرا صاحب۔” منٹو صدی کے ہنگام میں اس مضمون کا نام بار بار میرے ذہن میں آتا رہا، وہی منٹو جسے محمد حمید شاہد نے اپنی نئی کتاب کی پہلی سطر میں اس طرح نام زد کیا ہے”اُردو کے سب سے مقبول مگر بیک وقت سب سے زیادہ متنازع فیہ ، ناقابل فراموش، بدنام اور بالآخر تسلیم کر لیے گئے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو۔۔۔” ،وہی منٹو جس کے بارے میں شمس الرحمن فاروقی جیسی جیّد ادبی شخصیت نے اپنی تازہ گراں قدر کتاب میں لکھا ہے کہ منٹو کو نقاد کی ضرورت نہیں ۔لیکن نئے زمانے ، حقیقت نگاری کے تقاضے،اس دور کی معروضات کا جائزہ لینے اور ان سے اُٹھنے والے مباحث سے نبرد آزما ہونے کے بعد حمید شاہد یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ”منٹو کو اب بھی سنجیدہ نقاد کی ضرورت ہے۔” وہ منٹو کی طرف اس کے تخلیقی متن کے راستے سے آئے ہیں اور ایک نئے تناظر میں دیکھنے کے قائل ہیں۔ اپنے شاداب متخیلہ کی بدولت معاصراُردو افسانے میں نمایاں مقام حاصل کرنے والے اور معاصر افسانے کی گہری تنقیدی بصیرت کے حامل محمد حمید شاہد، اس طرح کے تخلیقی نقاد کی تازہ تر اور تازہ دم مثال ہیں جس کے ذریعے سے منٹو کی باز یافت نہیں بلکہ تجدید ہوتی ہے ۔ اپنے سلسلہ مضامین میں محمد حمید شاہد نے مختلف تنقیدی مباحث کے ذریعے سے منٹوکے مطالعے کو ایک نیارُخ عطا کر دیا ہے ۔ انھوں نے منٹو کی بات کو آج کے افسانے کے درمیان لا کر رکھ دیا ہے ۔ اس لیے یہ مختصر سی کتاب معنی خیز بھی ہے اور معنی افروز بھی۔
آصف فرخی
———–
———–
———–
———–
———–
———–
———–
———–
———–
A twice-born critic: Shamsur Rahman Faruqi |Asif Farrukhi
سعادت حسن منٹو:جادوئی حقیقت نگاری اورآج کا افسانہ
غلام عباس|”منٹو صاحب‘‘ شمس الرحمن فاروقی اور محمد حمید شاہد
One comment
Pingback: » تصنیف حیدر|سعادت حسن کے بعد کا قصہM. Hameed Shahid