اور وہ کہ جس کے چہرے پر تھوک کی ایک اور تہہ جم گئی تھی۔
اُس کی سماعتوں سے تھوک کر چلی جانے والی کے قہقہوں کی گونج اَبھی تک ٹکرا رہی تھی
وہ اُٹھا۔ بڑ بڑایا۔
’’جہنم۔ لعنت‘‘
پھر اَپنے وجود پر نظر ڈالی اور لڑکھڑا کر گر گیا۔
اب نگاہ اوپر کی تو نظر میں کوئی بھی نہ تھا‘ جو سما رہا ہو
وہ خالی پن سے گھبرا اُٹھا
مٹی مٹھیوں میں بھر لی اور ہوا کے رُخ پر اُچھال دِی۔۔۔ ساری مٹی ہوا نے واپس اُسی پر بکھیر دی۔
مٹی۔مٹی پر بکھر گئی۔وہ منمنا یا۔
’’اگر یہ مٹی ہے اور میں بھی ہوں تو حقیقت کیاہے۔‘‘
مٹی کا جواب تھا۔
’’شونیتا‘‘۔
شَونیتااس نے دہرایا
’’مٹی ہمیشہ سچ کہتی ہے۔ یہ جو شونیتا ہے نا!۔ یہ حقیقت کا اصل الاصول ہے۔ منہتائے دانش‘ کلی حقیقت۔ تتھتااور آخر کارنروان۔‘‘
تو کیا یہ سب کچھ واہمہ ہے‘ دھوکہ ہییہ صوت‘ یہ نگاہ‘ یہ جذبوں سے لبالب بھر جانا‘ یہ قہقہے‘ یہ آنسوؤں کا امنڈ آنا اور اور
’’یہ تو نردبان ہے۔‘‘
وہ مباحثے پر اُتر آیا‘ کہی باتوں کو سوال کی صورت لوٹانے لگا۔ نردبان؟
’’دیکھو جس منزل کے تم متلاشی ہو اُس کا جاپ شونیہ ہے۔‘‘
خاموش ہو جاؤخود میں اُترو اوراِنسانی بقا کے گہرے رازوں کی کھوج میں نکل جاؤ ورنہ تم اَپوہ کے اسیرہو جاؤ گے۔‘‘
وہ رہ نہ سکا۔ اَپوہ؟۔
’’محدود ہوتا ہے۔ اتنا کہ جتنا دوسرے کو رد کرنے سے جگہ بنا پاتا ہے۔‘‘
وہ حیرت سے اسے دیکھتا رہا۔
’’یہ جو میں ہوں نا!۔ یہ میں اس لیے ہوں کہ میں تُو نہیں ۔
اور یہ جو تُو ہے نا۔تُو اس لیے ہے کہ تُو میں نہیں۔
جب تجھ سے دوسرے سارے نفی ہو جائیں گے تو فقط تو ہوگا۔ تب آنند کی کھلی بانہیں تمہیں آغوش میں لے لیں گی۔‘‘
آنند؟۔
’’ہاں آنند۔ اور یہ جو آنند ہوتا ہے نا!۔ یہی رَس ہے۔ اور یہ جو رَس ہوتا ہے نا یہی آنندہے‘‘
تب اُس نے اس کی بابت سوچا جو رَس کی طلب میں زِیست کی نئی شاہ راہ پر نکل کھڑی ہوئی تھی اور خود کو سوچاکہ آنند پانے کو اُسے دیکھا تھا تو آنکھ میں وہ بھر گئی تھی جو منظر بننے کی خواہش سے وراء الوراء تھی۔
پھر ایک اور نگاہ اَپنے وجود پر ڈالی جو رَس بھوگ سے بھوگنا چاہتا تھا مگر آنکھوں میں مٹی کی رَڑَک تھی۔
اُسے یاد آیا۔ کہ وہ جو خودبخود نظر میں بھر گئی تھی پہلے پہل آئی تھی تو مَدَن مد تھی۔ جگر جگر کرتی۔ لشکارے مارتی چکا چوند کرتی۔ مگر اب وہ شو نیہ ہی شونیہ تھی۔
بیچ کی ساری منزلوں سے وہ بے خبر تھا۔
’’بیچ کی منزلیں جان لو گے نا!۔ تو بھے کا شکار ہو جاؤ گے۔ ان منزلوں سے گزرنے والے تو ان جانے میں گزر جاتے ہیں‘‘
اَن جانے میں؟
’’ہاں اَن جانے میں
رتی کے سہارے‘۔۔۔ شوک سہتے ہوئے‘ ۔۔۔بغیر کسی کُرودھ کے‘۔۔۔ بغیر کسی بھے کے‘۔۔۔بغیر کسی جگپسا کے
کہ اس راہ میں وسمے ہی وَسمے ہے۔‘‘
وسمے۔؟
’’ہاں اِستعجاب کے فلک سے تحّیر کا برستا ہوا جَل۔ اور آدمی اس سے بھیگ بھِیگ جاتا ہے تم بھی بھیگ گئے ہونا!‘‘
پھر اس نے دیکھا اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبالب تھیں۔
وہ ‘وہاں پہنچا جہاں وہ تھی جسے نہ دیکھنے کی خواہش تھی نہ دیکھے جانے کی اشتہا۔
تم اس منزل تک کیسی پہنچ گئیں؟
تمہارے طفیل۔ تم نے میری تکفیرکی اور میں خود کو بھول گئی۔ جب مجھے اَپنی نیستی کا یقین ہو گیا تو میں ان لعنتوں سے چھٹکارا پا گئی جن میں اب تم لتھڑے ہوے ہو۔
اب تم جہاں ہو وہاں کی بابت کچھ بتاؤ؟
دیکھو! میں جب ہوں ہی نہیں تو اَپنی بابت کیا بتاؤں؟
اور یہ جو تم میرے مقابل ہو۔
یہ میں نہیں اس کا پر تو ہے ہاں جو ہے۔مگر نہیں ہے۔
کیا کہتی ہو؟۔ جو ہے۔ مگر نہیں ہے۔ اور یہ جو تم ہو۔ اور یہ جو میں ہوں۔ او ر یہ جو زیست کی لمبی شاہ راہ ہے۔ اور اس پر بھاگتی قہقہے لگاتی وہ ہے‘ جو نظر کی طلب میں منظر بن گئی تھی اور یہ جو نظارے ہیں اور یہ جو نظر ہے
وہ ہنسی کچھ بھی نہیں ہے بس لعنت ہی لعنت ہے۔
یہ جنم بھی۔ اور اس کے علائق بھیسب لعنت ہی لعنت ہے
وہ بڑ بڑایا۔ لعنت؟
پھر بھاگتا ہواآئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔۔۔ اور تاڑ تاڑ تھپڑ اپنے ہی منھ پر یوں رسید کرنے لگا جیسے جہنم کے بھڑکتے شعلے بجھا رہا ہو۔
پھر چیخا لعنت ۔لعنت
تب اس نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیئے
اور ہونٹوں سے اس کے زخمی گالوں کو چوما۔
اور پوروں سے اس کے آنسوؤں کو صاف کیا۔
اور اسے دیکھا۔
اور جب اُسے دیکھا ‘ تو وہ اس کی آنکھ میں گر گئی اور ساری کی ساری بھیگ گئی۔
بھیگ گئی اور بہہ گئی۔
بہہ گئی اور ڈوب گئی۔
تب اس کے اندر اسی کی ہستی اُتر آئی۔
وہ مچل اُٹھی اور چیخ کر کہا۔
’’یہ جو لعنت کی کٹاری کی تیز دھار ہے نا! ۔ بالآخر یہی تو بندے کا مقدّر ہے۔‘‘


کچھ جنم جہنم سلسلے کے افسانوں کے بارے میں
متن در متن یعنی فریم نیریٹو کی صورت گری

محمد حمید شاہد کے افسانوں کو پڑھتے ہوئے ‘ دنیا سے متعلق ہمارے سابق یا بھولے بسرے علم کا احیا ہی نہیں ہوتا‘ بلکہ ہمیں باہر کی دنیا کا نیا ادراک حاصل ہوتا ہے‘ یعنی ہم محض بازیافت ہی نہیں کرتے بلکہ نئی یافت سے ہم کنار بھی ہوتے ہیں۔ بقول مبین مرزا فکشن محمد حمید شاہد کا مشغلہ نہیں بلکہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ فن سے سچی اور کھری وابستگی نے افسانہ نگار کو ایک ایسی راہ پر گامزن کر دیا ہے جہاں خارجی حقیقت نگاری اور باطنی صداقت پسندی مل کر ایک ہو گئی ہیں ۔ انسانی زندگی کاا لمیہ ہویا سیاسی وسماجی حالات کا دھارا‘ محبت کے کومل جذبے ہوں یا رشتوں کی مہک‘ ریاستی گروہی جبر ہو یا عالمی دہشت گردی یا پھر تہذیبی حوالوں کو نگلتی بازاری ثقافت ‘محمد حمید شاہد کا قلم یکساں روانی اور تخلیقی وقار کے ساتھ سب کو سمیٹتا چلا جاتا ہے۔
فن کار کا ایک منصب یہ بھی ہے کہ وہ اپنی تخلیق کو انسانی فطرت سے ہم آہنگ کرے۔ محمدحمیدشاہد نے اپنے بیانیے کو ایک سے زائد سطحوں پر یوں متحرک کرلیا ہے کہ وہ مطلق طور پر انسانی آہنگ میں ڈھل گیا ہے۔ اسی لیے تو احمد ندیم قاسمی کو کہنا پڑا کہ” محمد حمید شاہد کے افسانوں کا ایک ایک کردار ‘ایک ایک لاکھ انسانوں کی نمائندگی کرتا ہے۔“ خود شعوریت سے جہاں افسانہ نگار نے متن در متن یعنی فریم نیریٹو کی صورت گری کی ہے وہاں انہوں نے اپنے افسانوں کو ایک نئی قسم کی حقیقت نگاری کی راہ بھی سجھا دی ہے ۔ محمد حمید شاہد کے ہاں نوحقیقت پسندی کے حوالے سے عمدہ مثال بن جانے والے افسانوں میں” برف کا گھونسلا“ ” برشور“ ” لوتھ“ تکلے کا گھاﺅ“ ” ملبا سانس لیتا ہے“ ” موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ“ ”جنم جہنم“”چٹاکا شاخ اشتہا کا“ ” آدمی کا بکھراﺅ“ ”پارہ دوز“ اور ” مرگ زار“ جیسے افسانے شامل ہیں۔ واضح رہے کہ بقول ناصر عباس نیر، محمد حمید شاہد کی نو حقیقت پسندی دراصل زندگی پر غیر مشروط مگر کلی نظر ڈالنے سے عبارت ہے اور یہ اس توازن کو بحال کرتی ہے جسے جدیدیت پسندوں کی نافہمی اور ترقی پسندوں کی انتہا پسندانہ روشوں نے پامال کر دیا تھا۔ محمد حمید شاہد کےافسانے سورگ میں سور“”گانٹھ “ اور مرگ زار“ پاکستان اور اردو ادب کے شاہکار تسلیم کیے جائیں گے
ڈاکٹر توصیف تبسم
محمد حمید شاہد کے افسانے
Click to read now
ماشااللہ آج میرا پہلا وزٹ ہے ۔میں نے آپ کی ویب پے بہت ہی اچھی معلومات دیکھیں ۔
یہ پوسٹ جہنم جہنم کمال ہے ۔وقت کی کمی ہے انشاللہ پھر کسی وقت ٹائم نکال کر زرور آنا چاہوں گا۔