اِدھر اُدھرجَل تھا۔ جَل ہی جَل۔ پَوِتر جَھرجَھرگِرتا۔
وہ جو مدَمتا تھی‘مدمَاتی‘مَدَن مَد۔
وہ ا ِسی جَل میں اَشنَان کرتی‘ چھینٹے اُڑاتی‘ دوڑتی پھرتی تھی۔
ا ِس جَل کے بیچوں بیچ وہ جتنا آگے جاتی اتنا ہی جَل اور بڑھ جاتا۔
وہ تھی۔ بس وہ۔ اورجَل۔
ایک بگھی اُس کے واسطے تھی‘ رَنس سے بنی ہوئی‘ جَگرجَگر کرتی۔
جِس کی راہ میں کوئی وِگھن نہ تھی
اس کے آگے بارہ بدلیاں جتی ہوئی تھیں۔
بدلیاں بھی ایسی‘ کہ جن کے پاﺅں میں بجلیاںبھری ہوئی تھیں‘ ہر دم‘ تازہ دم۔
لگامیں اُ س کے ہاتھ میں تھیں ۔
وہ اِس جَل کے اُوپر اِس بگھی کو دوڑاتی پھرتی تھی۔ قہقہے لگاتی یا پھر ہنس ہنس کر دوہری ہوہو جاتی۔
ایسے میں اُس کا سُندَر بدن اورسُندَر ہو جاتا۔
تارِے جِھل مِل کرتے ساری کرنیں اُس پر نچھاور کردِیتے۔
اور لہریںاُچھل اُچھل کر اُس کااَ نگ اَنگ چومنے لگتیں۔
تب وہ شانت ہو جاتی۔
کہ ‘ وہ تھی ا ورجل تھا۔
جل تھا اور وہ تھی۔
ایک روز کہ وہ اپنے جوبن میں مست تھی۔
ایک کَنّی اُس پر اُتری۔
اُتری اور قطرہ بن گئی۔
قطرہ بن گئی اور ٹھہرگئی۔
پوری طریوں ٹھہری بھی نہ تھی‘ وہیں لرزتی جاتی تھی۔
اور عین اُس کے بیچ ایک رَنس سمٹی ہوئی تھی جو‘ مَن کے بیچ کھبتی تھی۔
اس نے اَپنے تئیں سوچا۔
کہ وہ تو اِس سَنمانی کَنّی کے سمان ہے قطرہ بننے والی‘ رَنس سمیٹے ہوئے۔
تب اِسی طرح کی ایک اورکَنّی اُوپر سے بَرسی ۔
وہیں پہلی کے آلے دَوالے۔
دونوں ایک دوسرے کے اور کھسکیں اور مل گئیں۔
دو سے ایک ہوئیں۔
سنجوگ کیا ہوا‘ دونوں جوا َب ایک ہو گئی تھیں‘ اپنے جَوبن پر آگئیں۔
وہ جَل میں یوں ملیں کہ جَل اُن کی چَھب میں چُھپ گیا۔
یہ جَل اب سارے میں لہروں کی طرح اُچھلنے لگاتھا۔
اُس نے جانا یہ سارا جَل جو پہلے جھرجھر گرتاتھا؛ اور اَب اِدھر اُدھر شُوکتا پھرتا ہے‘دوبوندوں کے سنجوگ کے سمان ہے۔
دوبوندیں ‘ جو پہلے دو کنّیاں تھیں ۔ اور اَب جَل ہی جَل تھا‘ شُوکتا‘شور مچاتا‘اُچھلتا کودتا۔
تب اُس کے بِھیتَر سے شانت نے شما چاہی۔
اور عجب طرح کی جوالا بھڑکنے لگی۔
اُسے اَپنی سُرَت نہ رہی۔
وہ شانتی جو اُس کی دَھروٹ تھی‘دو بوندوں کے کارن لٹ گئی تھی
وہ سوچتی:
ایک کَنّی جو بوندبنی ‘ وہ تو وہ خود تھی مگر دوسری ؟
پھر اُسے چِنتا ہوئی:
وہ سمندر کے سمان کیسے ہو سکے گی؟…. کیسے؟؟….کیسے؟؟؟
یہ جَل جو کبھی اُسے مَدھُو لگتا تھا۔
اَب اَگنی بن کر اُسے جلاتا تھا۔
اُس کے اندر سے ساری للک نچڑ گئی۔
ایک کلپنا تھی جو اُسے کلپاتی تھی۔
ایک ہی چِت تھی جس میں وہ اَپنی بُدھ کھو بیٹھی تھی۔
اُس کی بڑھوتری اِسی جل میں ہوئی تھی۔
مگر اب اُسے لگتاتھا ‘وہ اور تھی اورجَل اور۔
یہ کیسا یُدھ تھا جو اس کے اندر ہو رہا تھا۔
اس نے لہروں کے ساز پر مَدھُمَات کو چھیڑا ۔
یہ ُسر پہلے اُسے شانت کرتا تھا ‘اب تڑپانے لگا۔
عین اُس سمے اُس نے اوپر سے نیچے جھانک لیا۔
نیچے‘ بہت نیچے ‘ڈابھ کے اندر‘ ڈَابک کی چمک تھی‘یوں کہ جھلک پڑنے پر آنکھیں چندھیاتی تھی۔
اُس نے جانا‘پَرنتو ‘ وہ ڈابک نہیں‘اک کَنّی ہے دوسری کنی۔ قطرہ بنے اُس کی منتظر ۔
اُس نے اَپنی بگھی کی لگامیں اُس اور موڑ لیں۔
اور دھرتی پر اُتر آئی۔
ڈابک میں مِل جانا تو اس کے مقدّر میں نہ لکھا تھا‘مَن میں جا اُتری۔
اور آنکھوں میں جا سمائی۔
اور اَب قطرہ قطرہ دَامن بھگوتی رِہتی ہے۔
ٍ

کچھ اس افسانے کے باب میں
یہ افسانہ اپنی زبان اور تیکنیک سے ایک جمال پارہ بن گیا ہے ۔
محمد حمید شاہد کے افسانوں میں‘اپنی زبان اور تیکنیک کے لحاظ سے ”نرمل نیر“ حددرجہ قابل ذکر افسانہ ہے۔ افسانہ نگار نے ہندی اساطیر کے آہنگ میں رکھ کر اس افسانے کو لکھتے ہوئے ‘انسانی مقدر کو گرفت میں لینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ایک طرف جَل ہی جَل ہے پَوِتر جَھرجَھرگِرتا اور دوسری طرف مدَمتا ہے جو ا ِسی جَل میں اَشنَان کرتی‘ چھینٹےں اُڑاتی‘ دوڑتی پھرتی ہے۔ کہانی اس کے جَگرجَگرکرتی رَنس سے بنی ہوئی ہوئی بگھی کی سواری سے شروع ہوتی ہے جمالیاتی منظر بناتے ہوئے اس حقیقت کو کھو لتی ہے کہ آدمی کا مقدر یہی ہے کہ آنسو بہائے اور قطرہ قطرہ دَامن بھگوتا رہے۔یہ افسانہ اپنی زبان اور تیکنیک سے ایک جمال پارہ بن گیا ہے ۔
محمد حمید شاہد کے افسانے
Click to read now
32 تعليق
Pingback: » جنم جہنم-3|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » جنم جہنم-2|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » جنم جہنم-1|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » معزول نسل|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » آدمی کا بکھراﺅ|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » سورگ میں سور|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » برف کا گھونسلا|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » مَرگ زار|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » موت کا بوسہ|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » لوتھ|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » شاخ اشتہا کی چٹک|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » گانٹھ|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » بَرشَور|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » کیس ہسٹری سے باہر قتل|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » کہانی کیسے بنتی ہے|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » رُکی ہوئی زندگی|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » پارِینہ لمحے کا نزول|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » ادارہ اور آدمی|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » وَاپسی|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » سجدہ سہو|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » پارو|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » پارہ دوز|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » مراجعت کا عذاب|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » کتابُ الاموات سے میزانِ عدل کاباب|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » کہانی اور کرچیاں|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » ہار،جیت|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » گرفت|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » تماش بین|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » اپنا سکّہ|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » آٹھوں گانٹھ کمیت|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: » مَلبا سانس لیتا ہے|محمد حمید شاہدM. Hameed Shahid
Pingback: برف کا گھونسلا|محمد حمید شاہد – M. Hameed Shahid